بھائی مجھے تھوڑا سا شہد دے دیں‘ مجھے ایک بیماری ہے‘ اس کا علاج شہد سے ہی ممکن ہے۔ افسوس! میرے پاس اس وقت شہد نہیں ہے‘ ویسے شہد آپ کو مل سکتا ہے لیکن آپ کو کچھ دور جانا پڑے گا۔ ملک شام سے ایک بڑے تاجر کا قافلہ آرہا ہے وہ تاجر بہت اچھے انسان ہیں مجھے امید ہے وہ آپ کی ضرورت کیلئے شہد ضرور دے دیں گے ضرورت مند نے ان کا شکریہ ادا کیا اور شہر سے باہر نکل آیا تاکہ قافلہ وہاں پہنچے تو تاجر سے شہد کیلئے درخواست کرسکے‘ آخر قافلہ آتا نظر آیا‘ وہ فوراً اٹھا اور اس قافلہ کے امیر کے بارے میں پوچھا لوگوں نے ایک خوبصورت اوربارونق چہرہ والے شخص کی طرف اشارہ کردیا‘ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا: حضرت! میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں اس کے علاج کیلئے مجھے تھوڑےسے شہد کی ضرورت ہے انہوں نے فوراً اپنے غلام سے فرمایا: جس اونٹ پر شہد کے دو مٹکے لدے ہیں ان میں سے ایک مٹکا اس بھائی کو دے دیں‘ غلام نے یہ سن کر کہا: آقا! اگر ایک مٹکا اسے دے دیا تو اونٹ پر وزن برابر نہیں رہ جائے گا یہ سن کر انہوں نے فرمایا: تب پھر دونوں مٹکے انہیں دےدیں‘ یہ سن کر غلام گھبرا گیا اور بولا آقا! یہ اتنا وزن کیسے اٹھائے گا اس پر آقا نے کہا: تو پھر اونٹ بھی اسے دے دو‘ غلام فوراً دوڑا اور وہ اونٹ مٹکوں کے ساتھ اس کے حوالے کردیا‘ وہ ضرورت مند ان کا شکریہ ادا کرکے اونٹ کی رسی تھام کر چلا گیا‘ وہ حیران بھی تھا اور دل سے بے تحاشہ دعائیں بھی دے رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا یہ شخص کس قدر سخی ہے میں نے تھوڑا سا شہد مانگا‘ اس نے مجھےدو مٹکے دے دئیے‘ مٹکے ہی نہیں وہ اونٹ بھی دے دیا جس پر مٹکے لدے ہوئے تھے۔ ادھر غلام اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا تو آقا نے غلام سے کہا: جب میں نے تم سے کہا کہ اسے ایک مٹکا دے دو تو تم نہیں گئے دوسرا مٹکا دینے کیلئے کہا تو بھی تم نہیں گئے پھر جب میں نے یہ کہا کہ اونٹ بھی اسے دے دو تو تم دوڑتے ہوئے چلے گئے اس کی کیا وجہ تھی؟ غلام نے جواب دیا: آقا! جب میں نے یہ کہا کہ ایک پورا مٹکا دینے سے اونٹ پر وزن برابر نہیں رہے گا تو آپ نے دوسرا مٹکا دینے کا حکم فرمایا جب میں نے یہ کہا کہ وہ دونوں مٹکے کیسے اٹھائے گا تو آپ نے فرمایا اونٹ بھی اسے دے دو‘ اب میں ڈرا کہ اگر اب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ مجھے بھی اس کے ساتھ جانے کا حکم فرمادیں گے اس لیے میں نے دوڑ لگادی‘ آقا نے کہا: اگر تم اس کے ساتھ چلے جاتے تو غلامی سے آزاد ہوجاتے یہ تو اور اچھا ہوتا‘ غلام نے کہا: آقا! میں آزادی نہیں چاہتا‘ اس لیے کہ آپ کو تو مجھ جیسے سینکڑوں غلام مل جائیں گے لیکن مجھے آپ جیسا آقا نہیں ملے گا۔ میں آپ کی غلامی کو آزادی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ آپ کومعلوم ہے‘ یہ آقا کون تھے‘ یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ تھے۔
ایک زمانہ تھا جب اہل ایمان قرآنی مسلمان تھے اور ان کے اخلاق‘ عادات‘ معاملات اپنے آقا نبی رحمۃ اللعالمین فداہ ابی و امی ﷺ کے طرز پر عامل اور قائم تھے وہ نہ صرف انسانیت کیلئے خیرخواہ ہمدرد کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے بلکہ ان کی رحمت و خیرخواہی پر جانوروں اور چرند و پرند کو اعتماد تھا وہ بھی یہ سمجھتے تھے کہ نبی رحمۃ اللعالمین کی ذات کے غلام تمام مخلوق کو الخلق کلہم عیال اللہ جان کرمہربانی کا معاملہ کرنے والے ہیں وہ صاحب ایمان جن کو خود کائنات کے پیدا کرنے والے خالق و مالک نے اپنے ازلی و ابدی منشور میں ایمان کی اس شان کے ساتھ سند دی ہے۔ فان آمنوا بمثل ما آمنتم بہ فقد اھتدوا اگر یہ لوگ اس طرح ایمان والے بن جائیں جس طرح تم لوگ ایمان لائے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں گے ان کو اپنے اللہ اور رسول ﷺ کے فرمان پر اپنی آنکھوں دیکھی بات سے کہیں زیادہ ایمان اور یقین تھا‘ اس لیے وہ اس دنیا کو متاع غرور اور آخرت کو اللہم لاعیش الاعیش الآخرۃ یعنی زندگی اور اپنے رہنے کا گھر سمجھتے تھے‘ وہ اپنا حقیقی سرمایہ اور اصل کمائی اور ذاتی مال صرف اس کو سمجھتے تھے جو انہوں نے راہ خدا میں دے دیا اور اللہ کیلئے کسی کارخیر یا کسی ضرورت مند کی ضرورت میں خرچ کرے وکان اللہ شاکرا علیما جیسے قدر دان اور ان اللہ لایضیع اجرالمحسنین کی شان والے غنی حمید رب کائنات کے بینک میں جمع کردیا‘ لوگ اس معیار حق ایمان والوں کو ہزار آزادیوں پر بلکہ بعض مرتبہ بادشاہتوں پر ترجیح دیتے تھے(با قی صفحہ نمبر 53 پر)
(بقیہ:سخاوت کی ایک قابل تقلید مثال)
اس کے برخلاف اس نبی رحمۃ اللعالمین ﷺ پر ایمان اور اس کی امت میں ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہم مسلمان ہیں جن کی خودغرضی دنیا طلبی اور آخرت کو حقیقی ٹھکانہ نہ سمجھنے کے یقین کے فقدان میں لوگ غلامی تو غلامی مسلمانوں کے جرائم‘ پڑوسیوں کے ساتھ برے سلوک‘ حق تلفی‘ گندے اور بے تہذیب ماحول کی وجہ سے ان کے پڑوس میں بھی بسنا اور رہنا ناپسند کرتے ہیں۔ کاش ہم غور کرتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں